Friday, 15 January 2016

کیا مسعود اظہر کو بھارت کے حوالے کرنے کے امکانات موجود ہیں ؟

حمر بلال کا کہنا تھا کہ مولانا اظہر مسعود کے خلاف پاکستان میں کوئی ایف آئی آر موجود نہیں پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ نے بالآخر کالعدم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو محکمہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے حفاظتی تحویل میں لیے جانے کی تصدیق کر دی ہے۔ تاہم ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ ان کی گرفتاری اور ان کے خلاف قانونی کارروائی اس صورت میں ہو گی جب بھارت کی جانب سے پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے میں مولانا مسعود اظہر کے ملوث ہونے کے ٹھوس اور واضح ثبوت دیے جائیں گے۔پٹھان کوٹ میں واقع بھارتی فضائیہ کے اڈے پر جنوری کے پہلے ہفتے میں حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے میں سات بھارتی فوجی اور چھ شدت پسند ہلاک ہوگئے تھے، جس کے بعد بھارتی حکومت کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ حملے کے تانے بانے پاکستان میں موجود کالعدم شدت پسند تنظیم جیش محمد سے ملتے ہیں۔ ماضی میں بھی نئی دہلی کی جانب سے بھارت کی سرزمین پر ہونے والے حملوں میں کئی پاکستانی شہریوں کے ملوث ہونے کے الزامات لگائے گئے تھے جن میں جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید اور خود مولانا مسعود اظہر کا نام بھی شامل ہے۔لیکن پاکستان نے ہمیشہ ہی ان افراد کو بھارت کے حوالے کرنے سے اجتناب کیا ہے۔وزیرقانون کی اس تصدیق کے بعد کہ مولانا کو حفاظتی تحویل میں لیا جا چکا ہے، اب سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ اگر بھارت کی جانب سے مولانا مسعود اظہر کے پٹھان کوٹ حملے میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد فراہم کر دیے گئے تو کیا انھیں بھارت کے حوالے کر دیا جائےگا؟کیا اس بارے میں قانونی آپشنز موجود ہیں؟بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے، اس میں کئی قانونی پیچیدگیاں ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا کوئی سمجھوتہ ہی موجود نہیں۔ پنجاب کے وزیرقانون رانا ثنااللہ نے کالعدم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کوحفاظتی تحویل میں لیے جانے کی تصدیق کر دی ہے ’ابھی تک ایسا بہت کم ہوا ہے کہ پاکستان نے قیدیوں کے تبادلے کے سمجھوتے کے بغیر کسی شہری کو دوسرے ملک کے حوالے کیا ہو اور سمجھوتے کے بغیر کسی شہری کو بھارت کے حوالے کرنا حکومت کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔ تاہم اگر حکومت یہ سیاسی فیصلہ کر لے تو اسے کوئی قانونی راستہ نکالنا ہوگا۔‘احمر بلال کا کہنا تھا کہ مولانا اظہر مسعود کے خلاف پاکستان میں کوئی ایف آئی آر موجود نہیں تاہم انھیں جس قانون کے تحت حفاظتی تحویل میں رکھا گیا ہے اس میں ان سے تحقیقات ہو سکتی ہیں۔’ابھی دونوں ملکوں کے درمیان تحقیقاتی ٹیموں کے تبادلے کی بات ہو رہی ہے۔ پاکستان کی ٹیم بھارت سے کیا شواہد لاتی ہے، کیا وہ ثبوت اتنے ٹھوس ہوں گے کہ مسعود اظہر کی حوالگی کا سوچا جا سکے، اس کا اندازہ شواہد ملنے کے بعد ہی لگایا جا سکتا ہے۔‘احمر بلال صوفی نے بتایا کہ حفاظتی تحویل کے قانون کے تحت 30 دن کے اندر حکومت کو تحقیقات کرنا ہوتی ہیں اور یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ آپ کے پاس زیرحراست شخص کے خلاف کتنا طاقتور مواد موجود ہے۔ تاہم یہ مدت مزید 30 روز کے لیے بڑھ بھی سکتی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سارے معاملے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ بھارت کی جانب سے فراہم کیے جانے والے شواہد قانونی طور پر کتنے مضبوط ہیں۔ ورنہ اس مقدمے کا حال بھی ممبئی حملوں کے مقدمے جیسا ہو سکتا ہے۔ ابتدا میں تو ممکن ہے کہ ثبوت اینٹیلجنس معلومات پر مبنی ہوں لیکن دیکھنا یہ پڑے گا کہ قانونی اعتبار سے وہ ثبوت کس حد تک قابل قبول ہوں گے۔‘ماضی میں پاکستان میں چند ایسی مثالیں موجود ہیں جب پاکستانی شہریوں کو بغیر کسی قانونی عمل کے دوسرے ملکوں کے حوالے کیا گیا۔اس میں سب سے نمایاں رمزی یوسف کی امریکی حکام کو حوالگی ہے، لیکن اپنے کسی بھی شہری کو اس طرح سے بھارت کے حوالے کرنا پاکستانی حکومت کے لیے کسی صورت بھی ممکن نہیں ہوگا، کیونکہ ایسے کسی بھی اقدام کی اسے بھاری سیاسی قیمت اٹھانا پڑے گی۔ پاکستان نے ہمیشہ ہی حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کو بھارت کے حوالے کرنے سے اجتناب کیا ہے تو کیا کوئی اور ایسا قانونی راستہ ہے جسے اختیار کر کے کسی بھی ملزم کو بھارت کے حوالے کیا جا سکے؟ احمر بلال نے بتایا: ’اس مقصد کے لیے پاکستان قیدیوں کے تبادلے کے لیے موجود اپنا ایکٹ استعمال کرسکتا ہے۔ اس قانون کے تحت اسلام آباد کے ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ ملزم کی کسی دوسرے ملک حوالگی کا فیصلہ کر سکے۔‘تاہم احمر بلال کے مطابق: ’اس کے لیے حکومت کو سارے شواہد جج کے سامنے پیش کرنا ہوتے ہیں۔ ملزم کو اپنے دفاع کا اختیار ہوتا ہے اور سپریم کورٹ بھی اس میں مداخلت کی مجاز ہوتی ہے۔‘پاکستان میں اب تک کوئی ایسی مثال موجود نہیں کہ کسی ایسے ملک سے جس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا سمجھوتہ موجود نہیں .

No comments:

Post a Comment